ان خیالات کا اظہار آیت اللہ ڈاکٹر سید "ابراہیم رئیسی" نے آج بروز جمعرات کو اسلامی ممالک کے سفیروں اور وفود کے سربراہوں سے ایک ملاقات کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی مظلوم قوم کئی سالوں سے جنگ، عدم تحفظ اور نقل مکانی سے نبرد آزما ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران چالیس سال سے زائد عرصے سے اپنی کمیونٹی میں افغان مہاجرین اور بے گھر افراد کی میزبانی کر رہا ہے۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ توقع کی جا رہی تھی کہ تنازع کے خاتمے کے ساتھ، افغان لڑکیوں اور لڑکوں کی سلامتی، بہبود اور تعلیم سے افغانستان کے دوستوں کی آنکھیں اور دل روشن ہو جائیں گے۔ لیکن اب بڑی افسوس کی بات ہے کہ غیر ملکی رہنمائی سے تکفیری عدم تحفظ کو فروغ دینے کا ایک خطرناک اور بامقصد رجحان ہے، جو اس بار امت اسلامیہ کی ایک اور سرزمین میں فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دینا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لہذااسلامی جمہوریہ نے ہمیشہ افغانستان کی آئندہ حکومت میں تمام نسلی، مذہبی اور سیاسی گروہوں کی حقیقی شرکت پر زور دیا ہے تاکہ اس قوم اور افغانستان کے دشمنوں کی طرف سے بدسلوکی کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے اور برسوں کی تکالیف کے بعد امن حاصل کیا جا سکے۔
ڈاکٹر رئیسی نے امت اسلامیہ میں تکفیری فتنہ کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ کے شاندار اور کامیاب ریکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ عالم اسلام کے عظیم کمانڈروں جیسے شہدا حاج قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی جد و جہد نہ ہوتی تو داعش بہت سے ممالک میں حکمرانی کا دعوی کرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بھی اسلامی جمہوریہ تکفیر کے خلاف گفتگو اور میدان میں ہم آہنگی سے کام کرنے کے لیے تمام اسلامی ممالک کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ غاصب صہیونی ریاست آج بھی امت اسلامیہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور مظلوم فلسطین امت اسلامیہ کے اتحاد کی کنجی ہے۔ اگرچہ فلسطین اس بچوں کو مارنے والی حکومت کا سب سے بڑا شکار ہے، لیکن اس کے مذموم اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں اس کی غفلت یا بے پردگی پورے خطے اور عالم اسلام کے تشخص کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد خونخوار صہیونی کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والے ممالک کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اپنی آستین میں سانپ پالتا ہے اور یہ اقدام بلاشبہ دنیا کے تقریباً دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے غصے اور آزادوں کی نفرت کا باعث بنے گا۔
ایرانی صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی ریاست ایک متزلزل ریاست ہے اور ریاستی دہشت گردی، انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی، عوام کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال، بیت المقدس اور مغربی کنارے کے عوام کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی صیہونی حکومت کے استحکام اور سلامتی میں معاون نہیں ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ اگر امت اسلامیہ کے مومن نوجوانوں کی مزاحمت نہ ہوتی تو صیہونی تکفیریوں کی طرح خطے کے ممالک کو نگل چکے ہوتے۔ 70 سال سے زائد عرصے سے خطے میں عدم تحفظ، عدم استحکام اور نقل مکانی کا باعث بننے والی یہ ریاست، اب نہ صرف امن کی ساتھی نہیں ہو سکتی بلکہ جہاں بھی جاتی ہے اس کے استحکام اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین اور علاقے میں مزاحمت کو زندہ رکھنے میں یوم القدس کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ یوم القدس، بانی اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کی میراث اور ہوشیار اقدام ہے جس نے مسئلہ فلسطین او مزاحمت کوعالم اسلام کے دھڑکتے دل کی حیثیت سے مزاحمت نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے فلسطین کی سرزمین میں اس عظیم مخمصے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی معیارات پر مبنی ایک منصفانہ، جمہوری حل پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام حقیقی فلسطینیوں، مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کے ووٹوں سے رجوع کیا جائے، تاکہ اس کی سیاسی تقدیر کا تعین کیا جا سکے۔ فلسطین کی تاریخی سرزمین پر ایک حکومت تشکیل دی جائے اورقائد اسلامی انقلاب اسلامی کا یہ اقدام، اقوام متحدہ کے پاس رجسٹرڈ دستاویزات میں سے ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سلامی دنیا میں بڑھتے ہوئے عوامی رابطے دوستی کو وسعت دینے اور ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایران اور مصر جیسی عظیم تہذیبیں، جنہیں اسلام اور انسانی تہذیب سے مالا مال کیا گیا ہے اور ان کی مرہون منت ہے، امت اسلامیہ میں دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں منفرد کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان نے بھی صدر کی تقریر سے قبل تقریب میں حالیہ دنوں میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جارحانہ اور وحشیانہ اقدامات میں شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جرائم کا تسلسل اسلامی ممالک کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ کرتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، صہیونی ریاست کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمت کو سب سے اہم آپشن سمجھتا ہے۔ اسی وقت، اسلامی جمہوریہ نے قائد اسلامی انقلاب کی مدد سے، اس سرزمین کے تمام حقیقی اور شریف باشندوں کے ہاتھوں فلسطین کی تقدیر کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک سیاسی اقدام کی تجویز پیش کی ہے۔
ڈاکٹر امیر عبداللہیان نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ جلد ہی ایک متحد فلسطینی ریاست کی تشکیل کو پوری آبائی اور تاریخی فلسطینی سرزمین پر القدس کے دارالحکومت تک دیکھیں گے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@